نسیمِ سحر ۔۔۔ ’’آفتاب آمد دلیلِ آفتاب‘‘ ( نعتیہ نظم)

جِس کے لئے زمین دلیل،آسماں دلیل
جس کے لئے ہوئے ہیں یہ کون و مکاں دلیل
جس کے لئے ہیں بحر کی گہرائیاں دلیل
جس کے لئے پہاڑوں کی اونچائیاں دلیل
صحرا میں جس کے فیض کی زرخیزیاں دلیل
گلپوش پیڑ اور حسیں وادیاں دلیل
جس کی گواہ بحر کی سب بے کرانیاں
چشموںسے پھوٹتا ہؤا آبِ رواں دلیل
یثرب تھا جو ، مدینۂ طیبہ کہا گیا
اُس بے مثال کے لئے ہے وہ مکاں دلیل
جس کی صداقتوںکے لئے وقف ہر یقیں
ہر اعتقاد جس کے لئے بے گماں دلیل
جس کی نوید سارے صحیفوں میں ہے رقم
جس کا ہے آپ مالکِ کون و مکاں دلیل
جس کے لئے نماز میں بھی ہیں شہادتیں
جس کے لئے نماز سے پہلے اذاں دلیل
اہلِ جنوں بھی جس کی حضوری میں ہوشیار
جس پر تمام حکمت و دانائیاں دلیل
جس کے لئے ہیں وقف سبھی نعت خوانیاں
جس کے لئے ہیں سب سخن آرائیاں دلیل
معراج کے سفرکا مِلا ہے شرف جسے
جس کے لئے چمکتی ہوئی کہکشاں دلیل
واقف ہیں سارے اہلِ نظر اِن رموز سے
کوئی عیاں دلیل ہے، کوئی نہاں دلیل
٭
کافی نہیں ہے تب بھی نسیمِ سحرؔ ، اگر
دُہرائے لاکھوں مرتبہ میری زباں دلیل
لیکن تلاش کیوں کروں کوئی دلیل مَیں؟
اُس ذاتِ پاک کو ہے ضرورت کہاں دلیل

Related posts

Leave a Comment